نیند کیا ہے اور سونا کیوں ضروری ہے؟
اگر دماغ میں خون کی گردش کم ہو جائے تو اس سے بے ہوشی کا خطرہ ہوتا ہے تاہم نیند کا دماغ میں خون کی گردش سے کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے - نیند ھرmulti-cellular جاندار کے لیے انتہائی ضروری ہے - کیڑے مکوڑے جو ارتقا کے لحاظ سے انسانوں سے 400 ملین سال پہلے الگ ہو گئے تھے بھی صحت مند رہنے کے لئے نیند کے محتاج ہیں اور ان میں بھی نیند کے محرک وہی جینز اور وہی کیمیائی مالیکیولز ہیں جو انسانوں کے لیے ہیں – اس سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیند کا تعلق جینیات سے ہے بلکہ نظریہِ ارتقا کو بھی تقویت ملتی ہے –
ماہرین کا خیال ہے کہ نیند کا بنیادی مقصد عارضی یادوں کو مستقل یادوں کے سسٹم میں ٹرانسفر کرنا ہے – عارضی یادوں کے سسٹم کو کپیسیٹی بہت کم ہوتی ہے اور اس میں توانائی بھی بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے – اسکے علاوہ اس سسٹم کے ویسٹ پراڈکٹس بھی ہوتے ہیں جنہیں نیند کے دوران صاف کیا جاتا ہے - اگر اس سسٹم کو آرام نہ ملے اور اس میں محفوظ یادوں کو مستقل سسٹم میں ٹرانسفر نہ کیا جائے تو نہ صرف انسان کچھ بھی یاد نہ رکھ سکے گا بلکہ تمام دماغی نظام درہم برہم ہو جائے گا – یہی وجہ ہے کہ نیند کی کمی سے یادداشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے – رات بھر جاگ کر پڑھنا وقت کا ضیاع ہے – تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ جو لوگ پڑھنے کے بعد پوری نیند سوتے ہیں ان کو اپنا میٹیریل زیادہ دیر تک یاد رہتا ہے
ہر جاندار کے جسم میں کئی نظام ہیں جو گھڑی کی طرح وقت کا حساب رکھتے ہیں – ان میں سے ایک نظام کو circadian rhythm کہا جاتا ہے جو دن اور رات میں تمیز کرتا ہے – جیسے جیسے سورج کی روشنی کم ہوتی ہے اور رات آنے لگتی ہے تو یہ نظام جسم کو نیند کے لیئے تیار کرتا ہے – آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں، جسم تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور توجہ دینے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے – جب انسان سونے لگتا ہے تو سب سے پہلے آنکھیں بند ہوتی ہیں – اسکی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہے کہ سوتے وقت جسم کے تمام پٹھے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں سوائے آنکھوں کے پٹھوں کے – اسی وجہ سے گہری نیند ( جسمیں انسان خواب دیکھتا ہے) کے دوران آنکھیں حرکت کرتی رہتی ہیں اور اسی لئے اس نیند کو REM (Rapid Eye Movement) Sleep کہا جاتا ہے – اس نیند کے دوران دماغ آنکھوں کے پٹھوں کے علاوہ جسم کے تمام پٹھوں کے ماوف کر دیتا ہے تاکہ خواب کے دوران ذہن پر جو کچھ گزرتی ہے جسم اس پر عمل نہ کرنے پائے – اسے سلیپ پیریلیسز sleep paralysis کہا جاتا ہے – یہ سلیپ پیریلیسز نہ صرف انسانوں میں بلکہ تمام جانوروں میں بھی اسی طرح سے ہوتا ہے اور جانور بھی ریم سلیپ سے گزرتے ہین جو کہ نظریہِ ارتقا کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے - جن لوگوں میں کسی وجہ سے سلیپ پیریلیسزصحیح طریقے سے کام نہ کرے انہیں نیند میں چلنے کا عارضہ ہوتا ہے
نیند کے دوران دماغ کے وہ حصے (مثلاً frontal cortex) جن کے ذمہ منطقی سوچ اور تسلسل کا بیان (continuous narrative) ہوتی ہے کمزور پڑ جاتے ہیں تاہم دماغ کے باقی حصے اور خاص طور پر وہ حصے جن کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے یعنی لمبک سسٹم limbic system کام کرتے رہتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ اکثر خواب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تسلسل نہیں ہوتا – اس حالت میں دماغ پر جو کیفیات گزرتی ہیں ان میں سے زیادہ تر صبح ہونے تک بھول جاتی ہیں اس لیے کہ نیند کے دوران یادداشت کا سیسٹم یعنی میموری سبسیسٹم کام کم کر دیتا ہے - تاہم شدید جذباتی خواب دیر تک یاد رہتے ھیں شاید اس لیے کہ ان کا لمبک سسٹم پر اثر دیر تک رہتا ہے – اسکے علاوہ صبح سویرے کے خواب بھی یاد رہ جاتے ہیں – جاگنے کی بعد بھی دماغ کو پوری طرح کام شروع کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے جس کے دوران خواب کچھ کچھ یاد رہتے ہیں لیکن کچھ منٹ بعد ہی بیشتر خواب بھول جاتے ہیں – اسی لئے ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ خواب یاد رکھنا چاھتے ہیں تو جاگنے کے فوراً بعد ہی خواب کو لکھ لینا چاہئے
No comments:
Post a Comment